کوئی بھی چیز یہاں وقت ضرورت نہ ملی
کبھی صحرا جو ملا بھی کہیں وحشت نہ ملی
بند کمرے میں یہ دستور کہاں سے آیا
کیوں مجھے خود سے بھی ملنے کی اجازت نہ ملی
کیوں ہر ایک موڑ پہ روکا ہے تلاشی کے لئے
کیوں مجھے گھر سے نکلنے کی اجازت نہ ملی
اب یہی رنج مری آنکھ میں آ بیٹھا ہے
توڑ کر آئنہ دیکھا کہیں حیرت نہ ملی
موج دریا تھی کہیں اور نہ ہوا کا جھونکا
ریت پر لکھی تھی جو رات عبارت نہ ملی
0 Comments